حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ڈنمارک کی وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن نے جمعرات کو کہا کہ قرآن جیسی مقدس کتابوں کی بے حرمتی پر پابندی عائد کرنے سے اظہار رائے کی آزادی محدود نہیں ہوتی۔ میٹے فریڈرکسن نے یہ بات اپنے ملک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے بعد ایک انٹرویو میں کہی۔
جمعرات کو شائع ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے مذاہب کی مقدس کتابوں کو نہ جلانے سے اظہار رائے کی آزادی محدود ہو جائے گی۔
ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے اور جمعرات کو بھی ایک انتہا پسند شخص نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی، میٹے فریڈرکسن نے کہا کہ سیکورٹی کے خطرات ہیں اور بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کر دئے جانے کا خطرہ بھی ہے، خاص طور پر چونکہ یہ مسئلہ اس وقت ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔
واضح رہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ گزشتہ 28 جون کو اس وقت شروع ہوا تھا جب سویڈن میں ایک 37 سالہ عراقی مہاجر نے سویڈن کے دارالحکومت میں قرآن پاک کو نذر آتش کیا تھا اور اس گھناؤنے فعل میں اسے سویڈش پولیس کا مکمل تعاون حاصل تھا اور تقریباً تین ہفتے بعد 20 جولائی کو یہ گھناؤنا فعل دہرایا گیا اور اگلے دن یعنی 21 جولائی کو ڈنمارک کے دارالحکومت میں عراقی سفارت خانے کے سامنے ایک انتہا پسند نے مسجد کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔
اسی طرح 24 اور 25 جولائی کو بھی یہ شیطانی فعل دہرایا گیا، 31 جولائی کو ایک عراقی مہاجر نے سویڈش پارلیمنٹ کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔
قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے ردعمل میں سویڈن کی وزارت خارجہ نے 30 جولائی کو ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ تمام اسلام مخالف اقدامات کی مذمت کرتی ہے اور یہ کہ قرآن یا دیگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی توہین آمیز ہے۔